مزار پرانوار پرہاڑوی رحمتہ اللہ علیہ

مزار پرانوار پرہاڑوی رحمتہ اللہ علیہ
مرقد مبارک صاحب نبراس الشیخ خواجہ حافظ ابی حفص عبدالعزیز بن احمد بن حامد القریشی الفرهاروی چشتی نظامی الملتانی الہندی اقدس رحمتہ اللہ علیہ

خزینہِ اشعار حضرت خواجہ پرہاڑوی رحمتہ اللہ علیہ


صاحب نبراس بحر العلوم و عارف بااللہ شیخ المسلمین امام المتکلمین مقدام الفقہا قطب الموحدین الشیخ خواجہ حافظ ابی حفص عبدالعزیز بن احمد بن حامد القریشی الفرهاروی الملتانی الہندی رحمتہ اللہ علیہ

 خزینہِ اشعار حضرت خواجہ پرہاڑوی رحمتہ اللہ علیہ




پرہاروى كے علمى آثار كا مطالعہ كرنے سے پتہ چلتا ہے كہ شعرگوئى كے بارے ميں وہ انتہائى زرخيز ذہن اور عمدہ ذوق كے مالك تهے- قوافى اور اوزانِ شعر سے آپ بخوبى واقف تهے- معجون الجواہر،الياقوت اور نعم الوجيز وغيرہ آپ كى تاليفات سے اس موضوع ميں آپ كى استعداد كااندازہ لگايا جاسكتا ہے-

آپ اپنى كتابوں اور تاليفات كى ابتدا ميں بطورِ مقدمہ اور كتابوں كا اختتام اپنے منظوم كلام سے كرتے ہيں- چنانچہ النبراس كا مقدمہ 33/ اشعاراور خاتمہ 19/ ابيات پر مشتمل ہے-

آپ نے اپنى تاليفات الياقوت،حب الأصحاب اور النبراس كا آغاز منظوم كلام سے كيا ہے- اگر آپ كى تمام موٴلفات ہمارے پيش نظر ہوتيں تو ہم يقينى طور پر آپ كے منظوم مقدمات ِ كتب كا ذكر كرسكتے- يہ آپ كا ايك ايسا نادر وصف ہے جو برصغیر كے اہل علم كى موٴلفات ميں انتہائى كم ياب ہے- تشہد ميں اشارہٴ سبابہ كے اثبات كے متعلق آپ كے ايك رسالہ سے آپ كى شعرگوئى كى قدرت واستعداد كا خوب اندازہ ہوتا ہے-

آپ كى موٴلفات سے يہ بهى معلوم ہوتا ہے كہ آپ نبى ﷺ كى مدح و نعت كے متعلق اشعار كہتے اور ثناخوانِ رسالت حضرت حسان بن ثابت كے اشعار پر تضمين بهى كہتے- مثلاً


وَمَا أَحْسَنَ الْبَيْتُ الَّذِيْ قَدْ أَتٰى بِه
الْمُوٴَيِّدُ بِرُوحِ الْقُدْسِ فِيْ الشِّعْرِ
لَه هِمَمٌ لَا مُنْتَهٰى لِكِبَارِهَا
وَهِمَّتُهالصُّغْرىٰ أَجَلُّ مِنَ الدَّهْرِ


وہ ابيات كيا خوب ہيں جواشعار ميں روح القدس (جبريل عليہ السلام) كى تائيد پانے والے 
(حسان) 
نے كہے ہيں- اس كى بڑى بڑى مساعى و خدمات كے كيا كہنے- اس كى تو معمولى سى خدمت بهى زمانے بهر 
سے زيادہ وقيع ہے

ايمان كامل‘ كے نا م سے فارسى زبان ميں آپ كا ايك كتابچہ ہے- اس ميں مثنوى كے انداز پر ايك سو بيس اشعار 
ہيں اس ميں آپ نے اسلامى عقائد اور ان سے متعلقہ مسائل پر اجمالى بحث كى ہے
النبراس كے اختتام پر آپ نے جو قصیدہ رقم كيا ہے، وہ سہل ممتنع كى نہايت عمدہ مثال ہے- آپ نے ان ميں قرآنى آيات كے اقتباسات لفظاً و معنى ً ذكر كئے ہيں- اس قصيدہ كے بعض ابيات درج ذيل ہيں:


تَبَارَكْتَ يَا مَنْ لَا يَخِيْبَنَّ سَائِلُه       وَعَمَّ جَمِيْعُ الْكَائِنَاتِ نَوَائِلُه
لَكَ الْحَمْدُ مِنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَحْمَد  بِمَا رَقَمْتَ هَذَا الْكِتَابَ أَنَامِلُه
وَإنِّىْ أَخَافُ السَّهْوَ فِيْهِ لِعُجْلَتِيْ     وَأَجْدَرُ فِعْلٍ بِالْمَزَالِقِ عَاجِلُه
بُضَاعَتِي الْمُزْجَاةُ خُذْهَا تَكَرُّمًا        وَأَوفِ لَنَا الْكَيْلَ الْوَسِيْعَ مَكَائِلُه
لَقَدْ مَسَّنِىْ ضُرٌّ وَجِئْتُكَ سَائِلًا        وَأَنْتَ الَّذِيْ يُغْنِيْ الْفَقِيْرَ نَوَافِلُه
وَأَنْتَ تُعِيْنُ الْعَبْدَ خَيْرَ إِعَانَةٍ            إِذَا انْقَطَعَتْ أَسْبَابُهُ وَوَسَائِلُه
وَأَنْتَ حَفِيْظُ الْكُلِّ مِنْ شَرِّحَاسِدٍ      وَخَصْمٍ لَجُوْجٍ يَطْمِسُ الْحَقَّ بَاطِلُه
وَصَلِّ عَلٰى خَيْرِ الْبَرَايَا مُحَمَّدٍ          كَرِيْمِ السَّجَايَا لَا تُعَدُّ فَضَائِلُه
وَأَصْحَابِهِ الأَخْيَارِ طُرًّا وَآلِه               وَسَلِّمْ بِتَسْلِيْمٍ يَجُوْذُ هَوَاطِلُه




اسى طرح آپ كا ايك عربى قصيدہ میمیہ بهى ہے جو آپ كى جدتِ فكر، متانت ِرائے اور اہل وطن علما سے از حد اخلاص كا مظہر ہے- اس ميں آپ نے علماءِ زمانہ كى اس روش پرتاسف كا اظہار كيا ہے كہ وہ علم حديث كو پس پشت ڈال كر غير مفید عقلى علوم كے پیچھے پڑے ہيں- آپ اس قصيدہ ميں اپنے دور كے علما كو اس بے كار شغل پر ملامت كرتے ہوئے حديث كى طرف متوجہ ہونے كى ترغيب دلاتے ہيں-آپ فرماتے ہيں


أَ يَا عُلَمَاءَ الْهِنْدِ طَالَ بَقَائُكُمْ                وَزَالَ بِفَضْلِ اللهِ عَنْكُمْ بَلَاوٴُكُمْ
رَجَوْتُمْ بِعِلْمِ الْعَقْلِ فَوْزَسَعَادَةٍ               وَأَخْشٰى عَلَيْكُمْ أنْ يَخِيْبَ رَجَاءُ كُمْ
فَلاَ فِيْ تَصَانِيْفِ الأَثِيْرِ هِدَايَةٌ                وَلَا فِىْ إِشَارَاتِ ابْنِ سِيْنَا شِفَائُكُمْ
وَلَا طَلَعَتْ شَمْسُ الْهُدىٰ مِنْ مَطَالِعٍ       فَأَوْرَاقَهَا دَيْجُوْرُكُمْ لَا ضِيَائُكُمْ
وَلَا كَانَ شَرحُ الصَّدْرِ يَشْرَحُ صَدْرَكُمْ         بَلْ اِزْدَادَ مِنْهفِيْ الصُّدُوْرِ صَدَائُكُمْ
وَبَازِغَةٌ لَا ضَوْءَ فِيْهَا إذْا بَدَتْ                  وَأَظْلَمَ مِنْهكَاللَّيَالِىْ ذَكَائُكُمْ
وسُلَّمُكُمْ مِمَّا يُفِيْدُ تَسَفُّلًا                   وَلَيْسَ بِه نَحْوَ الْعُلُومِ اِرْتِقَائُكُمْ
فَمَا عِلْمُكُمْ يَوْمَ الْمَعَادِ بِنَافِعٍ                فَيَا وَيلَتٰى مَاذَا يَكُوْنُ جَزَائَكُمْ
أَخَذْتُمْ عُلُوْمَ الْكُفْرِ شَرْعًا كَأَنَّمَا             فَلَاسِفَةُ الْيُونَانِ هُمْ أَنْبِيَائُكُمْ
مَرِضْتُمْ فَزِدْتُمْ عِلَّةً فَوْقَ عِلَّةٍ                تَدَاوَوْا بِعِلْمِ الشَّرْعِ فَهُوَدَوَائُكُمْ
صِحَاحَ حَدِيْثُ الْمُصْطَفىٰ وَحِسَانُه         شِفَاءٌ عَجِيْبٌ لَمْ يَزَلْ مِنْه دَوَائُكُمْ


”اے علماءِ ہند! اللہ تمہیں طويل زندگى دے او راللہ كے فضل سے تمہارى سارى بيمارياں زائل ہوجائيں- تم عقلى علوم ميں كاميابى اور سعادت كى اُميد ركهتے ہو- مجهے ڈر ہے كہ تمہارى اُميد پورى نہ ہوسكے گى…’الاثير‘ كى تصانيف ميں كچھ ’ہدايت‘ نہيں اور نہ ابن سينا كى ’الاشارات‘ ميں تمہارى شفا ہے…’مطالع‘ سے ہدايت كا سورج طلوع نہيں ہوتا- اس كے اوراق تمہارے لئے ظلمت ہيں، ضيا نہيں…’صدرا‘ كى شرح تمہارے سينوں كو نہيں كهول سكتى بلكہ اس سے تو تمہارے سينوں كى بيمارياں مزيد بڑہتى ہيں…اور ’بازغة‘ طلوع ہو تو اس ميں كچھ نور نہيں بلكہ اس سے تمہارى ذہانت راتوں كى طرح مزيد سياہ ہوتى ہے…اور ’سلَّم‘ (سلم العلوم) تمہيں پستى ميں لے جاتى ہے اور اس كے ذريعے تم علوم كى بلنديوں كى طرف نہيں جاسكتے… تمہارے يہ علوم قيامت كے دن تمہيں كچھ فائدہ نہ ديں گے- افسوس! تمہارا بدلہ كيا ہوگا؟… تم كفر كے علوم كو اپنے لئے شريعت سمجھے ہوئے ہو- گويا يونان كے فلاسفہ تمہارے انبيا ہيں… تم بيمار ہو اور تمہارى بيماريوں ميں اضافہ ہورہا ہے- تم شرعى علوم سے علاج كرو، يہى تمہارى دوا ہے… حضرت محمد مصطفى ﷺ كى صحيح اور حسن احاديث عجيب شفا ہيں اور تمہارے لئے حقيقى دوا ہيں-“




پرہاروى نے كچھ زيادہ طويل عمر نہيں پائى- اس كے باوصف انہوں نے عربى كتب ميں ايسا گراں قدر اضافہ كيا ہے كہ انسان ششدر رہ جاتا ہے- ہمارا استعجاب اس وقت مزيدبڑھ جاتا ہے جب ہم ديكهتے ہيں كہ ان كا دورِ تاليف انتہائى مختصر ہے- جبكہ آپ كى گراں قدر تصانيف، مختصرات و مطولات اور تعليقات و شروح كى تعداد ايك صد سے زائد ہے- اس قدر عظيم علمى خدمت اللہ تعالىٰ كى خاص توفيق ہى سے ممكن ہے-


ايں سعادت بزور ِ بازو نيست         تانہ بخشد خدائے بخشندہ


آپ كى موٴلفات ميں سے ايك تاليف كا نام الخصائل الرضيةہے- اس ميں آپ نے اپنے شيخ حافظ محمد جمال اللہ ملتانى كے احوال بيان كئے ہيں جن كا انتقال 1226ہ كو ہوا- ان كے انتقال سے تين ہى دن بعد آپ نے ان كے احوال سے متعلق يہ كتاب لكھ دى- ہمارى معلومات كے مطابق يہ آپ كى اوّلين تصنیف ہے- اس وقت آپ كى عمر پندرہ برس تهى- اس بنياد پر ہم كہہ سكتے ہيں كہ آپ كا دور ِ تصنيف و تاليف 1226ھ سے يا شايد اس سے كچھ ہى پہلے شروع ہوتا ہے- اور يہ سلسلہ 1239ھ ميں آپ كے انتقال پُرملال تك چلتا ہے- گويا آپ كى مدتِ تاليف چودہ سال سے متجاوز نہيں-

شيخ پرہاروى كوتصنيف و تاليف كا بہت زيادہ شوق تها- آپ اللہ تعالىٰ سے دعا كيا كرتے تهے كہ وہ اس سلسلہ ميں آپ كى مدد فرمائے اور اس راہ ميں آسانياں مہيا كرے اور خطا و زلل سے محفوظ ركهے- آپ يہ تمنا بهى كيا كرتے تهے كہ آپ كى موٴلفات كى تعداد بہت ہو اور اللہ تعالىٰ ان ميں بركت فرمائے- ہمارے اس موقف كى تائيد آپ كى تاليف الناہية عن ذم معاوية ميں آپ كے اس كلام سے ہوتى ہے، آپ لكهتے ہيں



اُدْعُ بِالْفَلاحِ لِعَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَحْمَد
بَارَكَ اللهُ فِىْ مُصَنَّفَاتِه




”آپ اللہ تعالىٰ سے عبدالعزيز بن احمد كى كاميابى كى دعا كريں- اللہ اس كى مصنفات ميں بركت فرمائے-“ آپ تصنيف و تاليف ميں مشغوليت كو عبادت كا درجہ ديتے اور اسے اُخروى ثواب كا ذريعہ قرار ديتے تهے- آپ اللہ تعالىٰ سے يوں دعا كرتے ہيں



اِلٰهَ الْبَرَايَا أَسْتَخِيْرُكَ سَائِلًا                           وَمَاخَابَ عَبْدٌ يَسْتَخِيْرُ وَيَسْأَلُ
فَإنِّىْ بِتَصْنِيْفِ الدَّفَاتِرُ مُولَعٌ                           عَلٰى وَجَلٍ أَنْ تَضِيْعَ وَتَبْطُلُ
فَإنْ كَانَ مَاصَنَّفْتُه لَهْوٌعَابِثٌ                          فَيَا رَبِّ اَشْغِلْنِي بِمَا هُوَ أَفْضَلُ
وَإِنْ كَانَ فِيْ التَّصْنِيْفِ خَيْرٌوَبَرَكَةٌ فَيَسِّرْه           لِيْ كَيْلًا يَعُوْقَنَّ مُشْكِلُ



”اے كائنات كے الٰہ! ميں تجھ سے سوال كرتے ہوئے استخارہ كرتا ہوں، اور يہ حقيقت ہے كہ تجہ سے استخارہ كرنے والا اور مانگنے والا كبهى نامراد نہيں ہوتا… مجهے كتابيں تصنیف كرنے كا شوق ہے- مجهے يہ اندیشہ بهى ہے كہ كہيں وہ ضائع نہ ہوجائيں… ميں جو كتابيں تصنيف كرتا ہوں، اگريہ بے فائدہ كام ہے تو ميرے ربّ مجهے اس سے كسى بہتر كام ميں مصروف كردے اور اگر تصنيف كے كام ميں خير اور بركت ہے تو اسے ميرے لئے آسان كردے تاكہ كوئى مشكل آڑے نہ آسكے-“


آپ اپنے ايك اور قصيدہ ميں اللہ سے دعا كرتے ہيں



فَضَاعِفْ لَهُ يَوْمَ الْجَزَاءِ ثَوَابَهَا كَمَزْرَعِ حَبٍّ دَامَ تَنْمُوْسَنَابِلُه


يااللہ! تو اپنے بندے كو قيامت كے روز ان كتابوں كا كئى گنا اجر عطا فرمانا جيسے ايك ايك دانہ اُگتا ہے تو اس كى بالياں بڑھتى چلى جاتى ہيں


آپ رحمہ اللہ اپنى تاليفات كو ’باقيات صالحات‘ (تاديرباقى رہنے والے اعمالِ صالحہ) شمار كرتے تهے- آپ كى تمنا ہوتى تهى كہ آپ كى تاليفات كو قبولِ عام حاصل ہو اور وہ عرصہٴ دراز تك صفحہٴ ہستى پر باقى رہيں- چنانچہ ايك مقام پر اللہ سے يوں دعا كرتے ہيں:*


وَأَسْأَلُكَ اللّٰهُمَّ يَا خَيْرَ سَامِعٍ بِأَسْمَائِك الْحُسنىٰ الَّتِيْهِيَ أَبْجَلُ
قَبُوْلَ تَصَانِيْفِىْ جَمِيْعًا وَرَسْمَهَا       عَلٰى صَفْحَاتِ الدَّهْرِ لَا تَزِيْلُ


يا اللہ! اے بہترين سننے اور قبول كرنے والے، ميں تيرے جليل القدر اسما كے وسيلے سے دعا كرتا ہوں كہ تو ميرى تمام تصانيف كو قبول فرما اور يہ عرصہ دراز تك صفحہٴ ہستى پر باقى رہيں

آپ عقلى و نقلى علوم و فنون ميں تصنيف كى رغبت ركهتے تهے- آپ جب اپنى كتاب النبراسكى تاليف سے فارغ ہوئے، تو اس سے قبل آپ متعدد رسائل، كتابچوں اور طويل كتب كى تكميل كرچكے تهے- تو آپ اپنى كثرتِ تاليفات پر ازحد مسرور ہوئے اور اس نعمت پر آپ نے يوں اللہ كا شكر ادا كيا


وَأَنْتَ تُعِيْنُ الْعَبْدَ خَيْرَ إِعَانَةٍ          إذَا انْقَطَعَتْ أَسْبَابُهوَوَسَائِلُه
وَلَوْ لَمْ تَدَارَكْه بِفَيْضٍ مُسَلْسَلٍ      لَمَا كَثُرَتْ فِيْ كُلِّ عِلْمٍ رَسَائِلُه
وَلَوْ لَمْ تُعِنْه مِنْ جَنَابِكَ عِصْمَةً     فَتَألِيْفُه زُوْرٌ وَحَبْطٌ دَلَائِلُه


اور جب ميرے اسباب و وسائل منقطع ہوجائيں تو ہى ميرى خوب اعانت كرتا ہے- اگر تيرى مسلسل رحمت ميرے شامل حال نہ ہوتى تو ہر علم ميں ميرے وسائل بكثرت نہ ہوتے- اور اگر تو اپنے فضل سے مجهے پهسلنے سے 
محفوظ نہ ركهتا تو مير ى تاليفات بے كار اور دلائل بے وقعت ہوتے



التعليقات على تهذيب الكلام للتفتازاني كے آغاز ميں منظوم مقدمہ كا آغاز يوں ہے:


فَرَدْتَ يَا مَنْ يَسْتَحِيْلُ مِثَالُه          وَلَا يَتَنَاهٰى مَجْدُه وَجَلَالُه
وَأَخْرَسَ نُطْقَ الْوَاصِفِيْنَ نَعُوْتُه     وَأَقَرَّعَيْنَ النَّاظِرِيْنَ جَمَالُه


فارسی نمونۂ کلام


روزے کہ نظر در ساعت طامع گردد
روزے کہ موافق ہمہ واقع گردد

با سعد نکو کن و با نحس بدی
تا عملہائے تو نافع گردد


ایک کتاب ’’الایمان الکامل‘‘ عقائد پر فارسی نظم میں لکھی ہے۔ 

النبراس کتاب ۱۲۳۹ھ میں لکھی، اس کتاب کے شروع میں مصنف نے ۶۹ اشعار کی طویل نظم کہی ہے، جس میں براعتِ استہلال کی رعایت کے ساتھ، شرح لکھنے کی وجہ اور طرزِ تحریر و غیرہ بیان کی ہے، لکھتے ہیں:


أسبحک اللہ ثم أھلل
و انک أعلی کل شئ و أکمل

و أنت القدیم الدائم الفرد واحد
تدوم علی کل مجد لا تتحوَّل

و بعد من أن یدرک الغفل ذاتہٗ
و مظھر عن کل ما یتخیَّل

سمیع بصیر عالم متکلم
قدیر مرید واجب الذات أول

کچھ اشعار کے بعد وجہ تصنیف اور طرز ذکر کرتے ہیں:
و بعد فھذا شرح شرح عقائد
یحلل منہ ما کان یشکل

و قد کتب الأعلام فی کشف سرہ
حواشی تفشی سرہٗ و تفصل

و لکننی حاولت تسھیل فھمہٖ
علی المبتدی و ھو المعین المسھل

و طولت و التطویل لم یک عادتی
لما أنہٗ للمستفیدین أسھل

و کم نکتۃ أوردتھا لغرابۃ
و لیس فی ساحۃ الشرح مدخل

کتاب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں


و سمیتہٗ نبراس اذ ھو نیر
و فی لیلۃ الظلماء یھدی و یوصل

کتاب کے اختتام پر ۱۸۳ اشعار پر ایک طویل نظم کہی ہے، جس کے آخری چند اشعار نذرِ قارئین ہیں:


و صل علی خیر البرایا محمد
کریم السجایا لاتعد فضائلہٗ

و أصحابہ الأخیار طرا و آلہٖ
و سلم بتسلیم یجود ھو اطلہٗ

 رسالۃ فی رفع سبابۃ (منظومۃ)

یہ رسالہ ’’نزھۃ الخواطر‘‘ اور ’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ میں کچھ اشعار کے فرق کے ساتھ منقول ہے۔ ’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ میں اشعار اس طرح ہیں


حمداً لک اللھم حمدا سرمداً
و علی محمدک السلام مؤبداً

و علی صحابتہ الکرام جمیعھم
و العترۃ الأطھار دام مخلدا

عبدالعزیز یقول نظما فاتبعوا
حکما صحیحا بالحدیث مؤیدا

أن الاشارۃ سنۃ مأثورۃ
فاعمل بھذا الخبر حتی ترشدا

بحدیث خیر الخلق صح بیانہٗ
قد جاء عن جمع الصحابۃ مسندا

و بالاتفاق عن الأئمۃ کلھم
کأبی حنیفۃ صاحبیہ و أحمدا

و الشافعی و مالک فاتبعھم
اذ من یخالفھم فلیس بمقتدا

اس کے آخری اشعار یہ ہیں


قلنا لہٗ ان التردد باطل
اذ مذھب التحریم لیس مؤیدا

و أدلۃ استحبابھا لک قد بدت
کالشمس مشرقۃ فلاتترددا

ھذاک تلخیص المقالۃ مجملا
و لنا کتاب مستقل مفردا

البنطاسیا کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے


یا ذا الجلال الاعظم المترفع
و الکبریاء الاکبر المتمتع

یا رب! قد صنف علما وفرا
و العون منک و اننی أدعی

فاحفظ بحفظک کلما صنفتہٗ
فی حرزک المامون غیر مضیع

و انشرہ فی أھل العلم معطرا
و مفرحا مثل الشذی المتضوع

تعلیقات علی تھذیب الکلام کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے


فردت یا من یستحیل مثالہ
و لا یتناھی مجدہٗ و جلالہ

و أخرس نطق الواصفین نعوتہ
و أبر عین الناظرین جمالہ

حب الأصحاب ورد الروافض کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے


تبارک رب العرش جل جلالہٗ
جواد عظیم المن عم نوالہٗ

فلم یرجہ راج فخاب رجاؤہٗ
و لم یدعہ داع فرد سوالہٗ

No comments:

Post a Comment

جامعہ العریبیہ العزیزیہ پرہاڑویہ

علوم و تصانیف و مخطوطات حضرت خواجہ علامہ عبدالعزیز الفرھاروی القریشی الہندی الملتانی رحمتہ اللہ علیہ

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را  گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را   شیخ پرہاڑوی القریشی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو ربِ کریم نے علم...